وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا
کوزہ گر کے ہاتھ میں جس دم گاراتھا
ہم پردیسی، ہم کیا جانیں باغ کے دکھ
ہم نے اپنا جیون تھر میں ہارا تھا
اب کے ایسا پھول کھلا تھاصحرا میں
جس کے رخ سے روشن چاند ستارہ تھا
اُن آنکھوں کی وحشت کا کچھ مت پوچھو
جن ہاتھوں نے تنہا دشت سنوارا تھا
ہم نے اس کی خاطر گھر بھی چھوڑ دیا
جس نے ہم کو دشت میں لا کر مارا تھا
آئو، دیکھو پھول کھلے ہیں صحرا میں
یہ مت پوچھو کتنا خون ہمارا تھا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...